سہانجنا برصغیر پاک و ہند کا جانا پہچانا درخت ہے۔ طب ہندی (آیورویدک) کے مطابق تین سو بیماریوں کا علاج ہے۔
معجزاتی پتے :اس کے پتوں کا سب سے بڑا معجزہ تو یہ ہے کہ یہ دنیا کی آبادی کو نقص تغذیہ سے مکمل طور پر نجات دلاسکتے ہیں۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ انہیں استعمال کرکے دنیا کی وہ کثیر آباد ی جو اہم غذائی اجزاء سے محروم چلی آرہی ہے، غذائی اعتبار سے مالا مال ہوسکتی ہے۔ کم مقدار میں کھائے جانے والے یہ پتے غذائی اجزا کا گویا ایک خزانہ ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیق نے بھی تسلیم کیا ہے کہ سہانجنے کے پتے واقعی غذائی قدر و قیمت کا پاور ہائوس ہیں۔
غذائیت کی تفصیل:سہانجنے کے ایک گرام پتوں میں یہ غذائی اجزاء ہوتے ہیں:حیاتین الف: آنکھ کے امراض کے علاوہ جلد کے روگ، قلب کی شکایات، اسہال اور دوسری کئی بیماریوں کی ڈھال ہوتا ہے۔ اس حیاتین کی کمی ہی سے بچوں کے جسم کی قوت مدافعت کے کم ہو جانے سے وہ خسرے اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔حیاتین ج: آج قدیم طبوں کی یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ ترش پھل، کینو، سنگترے، لیموں، امردو اور آملے کے استعمال سے بھی امراض کے خلاف جسم کو مقابلے کرنے کی صلاحیت اور طاقت حاصل ہوتی ہے۔ حیاتین ج (وٹامن سی) جسم کے خلیات کو مستحکم اور چست رکھتا ہے۔ جسم میں اس کی وجہ سے نزلے زکام اور انفلوئنزا وغیرہ سے لڑنے کی صلاحیت قوی رہتی ہے۔کیلشیم: جسم کی مضبوط ہڈیوں کی تعمیر کے لیے یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس سے دانت مضبوط رہتے ہیں اور ہڈیوں کے گھلنے کا خطرہ بھی لاحق نہیں ہوتا۔پوٹاشیم: دماغ اور اعصاب کی اچھی کارکردگی کے لیے یہ بہت اہمیت مسلمہ ہے۔پانی کی صفائی:برصغیر کے مختلف علاقوں میں سے چند ہی میں سہانجنے کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دکن اور وسط ہند میں پیدا ہونے والی نرملی کی طرح لوگ اس کے بیج پانی صاف کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جھیل، ندی نالوں سے پانی لانے کے بعد ایک کپڑے میں اس کے بیج باندھ کر پانی میں پوٹلی گھما کر ڈال دیئے جاتے ہیں۔ ان بیجوں سے خارج ہونے والے پروٹین کے پانی میں شامل ہونے سے مٹی کے ذرات اور دیگر میل کچیل سمٹ کر مٹکے کی تہہ میں بیٹھ جاتا ہے یوں پانی صاف ستھرا ہوکر پینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے 50 سے 150 ملی گرام بیجوں کا سفوف استعمال کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ان بیجوں سے تیل نکالنے کے بعد بچ جانے والی کھلی سے بھی یہی کام لیا جاسکتا ہے۔سہانجنے کے پتوں کی بھجیا کے علاوہ اس کے بیج بھی مقوی غذا ہوتے ہیں۔ انہیں عام طور پر بیسن یا آٹا لگا کر تل کر کھانے سے جسم کو کیلشیم اور پوٹاشیم خوب ملتا ہے۔ اسی طرح اس کی نرم پھلیاں بھی بڑے شوق سے پکا کر کھائی جاتی ہیں۔ یہ بھی غذائیت بخش ہوتی ہیں۔ ان میں تمام ضروری امینو ترشے ہوتے ہیں۔ ایشیائی ملکوں کے علاوہ اب دیگر ملکوں میں بھی ان کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ پکانے کا طریقہ:سہانجنے کے تازہ اور گہرے سبز رنگ پتوں کو دھوکر پالک، میتھی وغیرہ کی طرح پکانا چاہیے۔ اس کی ڈنڈیاںشامل نہیں کرنی چاہئیں، کیونکہ یہ سخت ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں دال، سبزیوں اور قیمے وغیرہ میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔بیجوں کا تیل:سہانجنے کے خشک بیجوں سے ہلکے زرد رنگ کا تیل نکلتا ہے جسے بین یا بیہن کا تیل کہتے ہیں۔ اس کی خوشبو سوندھی ہوتی ہے۔ بیجوں میں ۴۰ فیصد تیل ہوتا ہے۔دوائی کا استعمال:سہانجنا ایک مؤثر قدرتی اینٹی بائیوٹک کے طور پر گائوں دیہات میں زچگی کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے جگر کے امراض کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ عمان میں اس کا تیل پیٹ کی خرابیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسے خوشبوئوں کی تیاری کے علاوہ بالوں میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ دیہاتی لوگ اس کے پھولوں کا جوشاندہ نزلے زکام کے لیے پیتے ہیں۔ ان کے تجربے کے مطابق یہ جوشاندہ بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس کے خشک پتے اسہال کا موثر علاج سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح اس پودے کا عصارہ (ایکسٹریٹ) جوڑوں خاص طور پر گھٹنوں کے درد کے لیے بہت مفید سمجھا جاتا ہے۔ اسے دانتوں کے ورم اور تکالیف کے علاوہ سانس کے نالی اور پھیپھڑوں کے انفیکشن کے لیے بھی موثر قرار دیا جاتا ہے۔ پھوڑے پر اس کی پلٹس مفید ثابت ہوتی ہے۔چھال:سہانجنے کی چھال ایگزیما کے علاوہ جلنے جھلسنے کی شکایات، زخم اور مثانے، پیشاب کی نالی کی انفیکشن کے(باقی صفحہ نمبر 59 پر)
(بقیہ:سہانجنا کے پتوں کی بھجیا!طاقت اتنی کےیقین نہ آئے!)
لیے مفید ہوتی ہے۔ جلدی شکایات میں اسے پانی میں گھس کر لیپ کرتے ہیں۔ پیشاب کی نالی اور مثانے کی چھوت کے لیے اس کی چھال تازہ ہوتو تین چار گرام کی مقدار میں پانی میں پیس کر چھان کر پلائی جاتی ہے۔ خشک کو رات پانی میں بھگو کر استعمال کراتے ہیں۔ پتے بطور دوا: سہانجنے کے پتوں میں پھپوندی روکنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ان کا رس ضدحیوی خصوصیات بھی رکھتا ہے اور اس میں پھلوں، سبزیوں، بیجوں کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ جنوبی ہند میں سہانجنے کے تلخ قسم کے پتوں کا رس دہی میں ملا کر کھلانا مقوی قلب سمجھا جاتا ہے۔پھول:سہانجنے کے پھول مقوی اور پیشاب آور ہوتے ہیں۔ ان سے صفرا بھی خارج ہوتا ہے۔بیج:بخار دور کرتے ہیں اور ان میں جراثیم کشی کی خاصیت بھی ہوتی ہے۔ ان کے تیل کی مالش گٹھیا کے لیے مفید ہوتی ہے۔جڑ:اس میں بھی تیل ہوتا ہے۔ اس میں ضدی حیوی صلاحیت ہونے کے علاوہ تشنج دور کرنے کی خاصیت ہوتی ہے۔ اس کی مالش کرنے اور شکر وغیرہ پر ڈال کر چند قطروں کے کھانے سے بلغم خارج ہو جاتاہے۔
پودوں کے امراض: زمین میں گاشت سے پہلے اس کےپتوں کو شامل کر دینے سے پودے کئی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں